سوانح حیات
وحید
مراد
وحید
مراد |
||
|
||
پیدائش |
وحید
مراد |
|
وفات |
نومبر 23، 1983
(عمر 45 سال) |
|
مدفن |
گلبرگ
قبرستان، علی
زیب روڈ، لاہور |
|
یادگار |
وحید مراد
روڈ، کراچی |
|
رہائش |
کراچی |
|
اسمائے دیگر |
چاکلیٹ ہیرو |
|
تعلیم |
ماسٹرز ڈگری
برائے انگریزی
ادب |
|
مادر علمی |
کراچی یونیورسٹی
(پاکستانی
فلم انڈسٹری
کے پہلے
ماسٹرز ڈگری
ہولڈر
اداکار) |
|
پیشہ |
اداکار |
|
سالہائے
فعالیت |
1983–1959 |
|
آبائی شہر |
کراچی |
|
شریک حیات |
سلمہ مراد |
|
اعزازات |
·
ستارہ
امتیاز ·
نگار
اعزاز |
|
وحید
مراد (اردو: وحید
مراد) (1938 2
اکتوبر - 1983
نومبر 23) ایک
نامور
پاکستانی فلم
اداکار، پروڈیوسر
اور سکرپٹ
مصنف تھے. وہ
اپنی مدھر آواز،
پرکشش شخصیت
اور غیر معمولی
اداکاری کی
وجہ سے ناصرف
پاکستان بلکہ
جنوبی ایشیا میں
مشہور تھے۔
اپنی بے مثال
اداکاری اور
مقناطیسی شخصیت
کی وجہ سے وہ
’چاکلیٹی ہیرو‘
کے نام سے بھی
پہچانے جاتے
تھے۔
کراچی
میں پیدا ہونے
والے وحید
مراد نے اپنے
کیرئیر کا آغاز
1959 میں مہمان
اداکار کے طور
پر فلم ساتھی
سے کیا، اس
وقت ان کی عمر 21
سال تھی۔ بطور
معاون اداکار
وہ پہلی بار 1962 کی
فلم اولاد میں
نظر آئے۔ 1964 میں
انہوں نے اپنی
فلم ہیرا اور
پتھر پروڈیوس
کی جس میں وہ
پہلی بار ایک
مرکزی کردار
کے طور پر
جلوہ گر ہوئے۔
1964 سے 1971 تک انکی
کامیاب ترین
فلموں کے
سلسلے نے انہیں
فلم انڈسٹری
کا کامیاب ترین
و مشہور ترین
اداکار بنا دیا۔
انکا شرارتی و
رومانوی و
دلربا اداکاری
نے انہیں
مشہور ترین
بنادیا -- اور کسی
حد تک متنازعہ
بھی۔
1966 کی فلم ارمان،
جو وحید نے
خود پروڈیوس
بھی کی تھی،
نے برصغیر کی
فلم انڈسٹری میں
ایسا انقلاب
برپا کردیا کہ
پاکستانی فلم
انڈسٹری دنیا
میں ایک
ابھرتا ہوا
ستارہ بن گئی
اور وہ
پاکستانی
فلموں کے پہلے
’سپر اسٹار‘ بن
گئے۔ جیسا کہ
انہوں نے 1967 میں
ایک انٹرویو میں
کہا کہ صرف دلیپ
کمار ہی ایک
لازوال
اداکار نہیں۔
نومبر
2010 میں، وحید کی
موت کے ایک طویل
عرصے 27 سال
بعد، بلاآخر
پاکستانی صدر
آصف زرداری
نےوحید کو انکی
انگنت خدمات
کے صلے میں
انہیں ستارہ
امتیاز
برائے شعبئہ
ادب و فنون لطیفہ
و کھیل و طب کے
ایوارڈ سے
نوازا ۔
فہرست
·
ورثہ
·
وحید
مراد کے حاصل
کردہ ایوارڈز
·
وحید
مراد پر
فلمائے گئے
گانے
فلم کیریئر
پروڈیوسر
کے طور پر وحید
مراد اپنے
والد کے قائم
شدہ فلم آرٹس
کے تحت فلم انسان
بدلتا ہے سے
اپنے کیریئرکا
آغاز کیا۔
پروڈیوسر کے
طور ان کی
دوسری فلم جب
سے دیکھا ہے
تمہے میں
انہوں نے نائیکا
کے طور پر زیبا
کے ساتھ درپن
کو ڈالا . اس کے
بعد درپن نے زیادہ
تر سٹوڈیو میں
دیر سے آنے
شروع کر دیا. زیبا
نے ان کی اگلی
فلم میں ہیرو
کے طور پر خود
وحید کی تجویز
پیش کی . وحید
خود اپنی
فلموں میں دستخط
کرنے کے لئے تیار
نہیں تھا . مگر
جب یہی تجویز
اپنے پرانے
اچھے دوست پرویز
ملک سے آئی تو
وحید نے زیبا
کے نائیکا
ہونے کی شرط
رکھی، جو زیبا
نے قبول کر لی.
نتیجے کے طور
پر انہوں نے
سب سے پہلی
فلم 1962 کی اولاد
میں ایک معاون
کردار میں
اداکاری کی.
فلم اس کے دوست
ایس ایم یوسف
کی طرف سے ہدایت
کاری کی گئی
تھی۔ اولاد کو
ناقدین کی طرف
سے بہت زیادہ
پسند کی گئی،
اور سال کی سب
سے بہترین فلم
کے زمرے میں
نگار ایوارڈ
ملا . ہیرا اور
پتھر ایک
معروف اداکار
کے طور پر ان کی
پہلی فلم تھی
اور اس کی بڑی
کامیابی سمجھی
گئی۔ انہں اسی
فلم کے لیے
بہترین
اداکار کے
زمرے میں نگار
ایوارڈ ملا۔ [1]
وحید
مراد اور زیبا
فلم ارمان (1966)
میں |
1966 میں،
انہوں نے پرویز
ملک کی ہدایت
کردہ اپنی
پروڈکشن ارمان
میں کام کیا. ارمان
نے اس وقت کے
تمام باکس آفس
کے ریکارڈز
توڑ دیئے اور
سینما گھروں میں
75 ہفتے مکمل
کرکے پاکستان
کی پہلی پلاٹینم
جوبلی فلم بن
گئی اور وحید
کو پاکستانی
فلموں کا پہلا
سپر اسٹار
بنادیا. فلم ارمان
ایک رومانوی
اور مدھر محبت
کی کہانی ہے.
خاص طور پر
احمد رشدی کے
گائے ہوئے کوکو
کورینا، اکیلے
نہ جانا، بے
تاب ہو ادھر
تم اور زندگی
اپنی تھی ابتک
جیسے گانے
نوجوانوں
بالخصوص لڑکیوں
میں بے حد
مقبول ہوئے۔
انہوں نے فلم ارمان
کے لئے دو
نگار ایوارڈز
حاصل کئے، ایک
بہترین پروڈیوسر
اور دوسرا
بہترین
اداکار کے طور
پر۔ اسی سال
کے دوران، وہ
زیبا کے ساتھ
ایک سپرہٹ فلم
جاگ اٹھا
انسان میں
اداکاری کی.
اس میں کوئی
شک نہیں کہ وحید
نے زیبا کو
اپنی فلموں میں
کاسٹ کرکے زیبا
کی ملک گیر
شہرت میں ایک
بہت اہم کردار
ادا کیا۔
1967 میں،
انہوں نے دیور
بھابی، دوراھا،
انسانیت اور مان
باپ جیسی
لازوال فلموں
میں معروف
اداکاری کی.
اس کے علاوہ سینما
گھروں میں 50
ہفتے مکمل
کرنے والی فلم
دیور بھابی
ان کی بہترین
فلموں میں سے
ایک سمجھی جاتی
ہے۔ دیور
بھابی کی
کہانی، پاک
بھارت کے
فرسودہ اور
جاہلانہ سماجی
خیالات و روایات
پر مبنی ہے.
فلم انسانیت
میں وحید نے ایک
سرشار ڈاکٹر
کا کردار ادا
کیا جو محبت
اور انسانیت
کے درمیان
بطور فرض شناس
ڈاکٹر اپنے
فرض کی ادائیگی
کرتا ہوا
کردار نظر آتا
ہے۔ یہ فلم بھی
ان کی بہترین
فلموں میں سے
ایک سمجھی جاتی
ہے۔
1964 سے 1968
تک، وحید مراد
اور پرویز ملک
نے ہیرا اور
پتھر، ارمان،
احسان، دوراھا
اور جہاں تم
وہاں ہم جیسے
کامیاب فلم
بنائیں۔ وحید
مراد، پرویز
ملک، مسرور
انور، سہیل
رانا، احمد
رشدی اور زیبا
کی کامیاب ٹیم
نے ایک سے ایک
بہترین فلمیں
بنائیں۔ وحید
مراد ’فلم
آرٹس‘ کی چھتری
کے تحت پرویز
ملک، مسرور
انور اور سہیل
رانا تھے. لیکن
1960 کی دہائی کے
اخیر میں، وحید
مراد اور دیگر
’فلم آرٹس‘ کی ٹیم
کے ارکان کے
درمیان جھگڑے
میں اضافہ ہوگیا۔
پرویز ملک وحید
کی فلموں کی
کامیابی کا
سارا کریڈٹ
خود لینے اور
دوسروں کو بہت
کم پذیرائی دینے
پر ناخوش تھے.
تو یوں ’فلم
آرٹس‘ ٹوٹ گئی۔
پرویز ملک نے
نئے اداکاروں
کے ساتھ ان کے
اپنے منصوبوں
میں کام کرنا
شروع کر دیا.
البتہ دو فلمیں
یعنی اسے دیکھا
اسے چاہا اور دشمن،
جو 1974 میں 6 سال کی
ایک طویل وقفے
کے بعد بنائی
گئیں مگر ’فلم
آرٹس‘ کے زیرِ
سایہ نہیں۔ 1974 میں
آنے والی دو
فلموں سمیت وحید
مراد اور پرویز
ملک کی کامیاب
جوڑی نے مجموعی
طور پر 7 فلمیں
بنائی، جن میں
سے فلم اسے دیکھا
اسے چاہا کو
چھوڑ کر سبھی
فلمیں کامیاب
رہیں۔
1969 میں،
وحید نے فلم اشارہ
پروڈیوس کی،
جس میں انہوں
نے خود ہدایت
کاری و تحریر
و اداکاری کی،
مکر وہ فلم
ناقدین
وحید
مراد اور
شبنم فلم عندلیب
(1969) میں |
کو
پسند کے
باوجود باکس آفس
پر صرف سلور
جوبلی کرسکی۔
1969 میں فرید
احمد کی ہدایت
کردہ فلم اندلیب
جاری کی گئی۔
جس میں دیگر
شریک ستاروں میں
شبنم، آلیہ،
طالش اور مصطفی
قریشی شامل
تھے. اندلیب
سال کی سب سے
بڑی فلموں میں
سے ایک ثابت
ہوئی. فلم بینوں
نے ان کی
اداکاری بے حد
پسند کی،
بالخصوص احمد
رشدی کا گایا
ہوا گانا کچھ
لوگ روٹھ کر
بھی، جس میں
وحید اپنی سرخ
سپورٹس کار میں
شبنم کے ساتھ
اپنے محصوص
انداز میں چھیڑچھاڑ
کررہے ہیں، بے
حد مقبول ہوا۔
وحید مراد نے
فلم کے لئے
بہترین
اداکار کے
زمرے میں نگار
ایوارڈ حاصل کیا.
ناقدین اس بات
پر متفق ہیں
کہ گلوکار
احمد رشدی کا
وحید مراد کی
کامیابی میں
اہم کردار
تھا، اور رشدی
کی آواز خاص
اسی کے لئے
بنائی گئی تھی۔
1970 سے 1979
تک 1970 کی نصیب
اپنا اپنا
اور انجمن جیسی
سپرہٹ، 1971 کی نیند
ہماری خواب
تمہارے اور مستانہ
ماہی (وحید کی
پہلی پنجابی
فلم)، 1972 کی بہارو
پھول برساو، عشق
میرا ناں
(پنجابی فلم)، 1974
کی شمع، 1975 کی جب
جب پھول، 1976کی شبانہ،
1978 کی سہیلی، پرکھ
اور خدا اور
محبت، اور 1979 کی
آواز اور بہن
بھائی جیسی
فلمیں سپرہٹ
رہیں. 1971 میں وحید
کی پہلی پنجابی
فلم مستانہ
ماہی ریلیز
ہوئی، جسے
انہوں نے خود
بنائی جبکہ
افتخار خان نے
ہدایت کاری کی۔
مستانہ ماہی
خالصتا ایک
رومانٹک اور
موسیقی سے
بھرپور فلم تھی.
وحید نے مستانہ
ماہی کے لئے
بہترین
اداکار کے لئے
نگار ایوارڈ
حاصل کیا.
ابتدائی
1970 کی دھائی کے
دوران، ان کے
پاس نایکا کو
منتخب کرنے میں
بہت کم یا نہ
ہونے کے برابر
اداکارائیں
رہ گئیں تھیں۔
زیبا کو محمد
علی کے ساتھ
شادی کے بعد،
وحید مراد کے
ساتھ بطور نایکا
کام کرنے کی
پابندی لگ گئی
تھی. جلد ہی
شبنم کو اس کے
نوبیہاتا
شوہر روبن
گھوش وحید کے
ساتھ کام نہ
کرنے پر مجبور
کردیا. یہاں
تک کہ نشو کو
بھی اس کے
ساتھ کام کرنے
کی اجازت بھی
نہیں رہی تھی. یہ
وحید کی کیریئر
کے لئے بہت
بڑا دھچکہ
تھا. ایک خاص
لابی کی اجارہ
داری کی وجہ
سے پائے کے
پروڈیوسر و
دائیرکٹرز نے
وحید کو مرکزی
کردار کے
بجائے بطور
معاون اداکار
کے طور پر پیشکش
کرنا شروع کردیا۔
مزید یہ کہ ندیم
کی 1970 کی دھائی
فلمیں وحید کو
ایک سخت
مقابلہ دے رہی
تھی۔ لہٰذا وحید
مرکزی
کرداروں کے
لئے دوسرے
درجے کے ہدایت
کاروں کی
فلموں تک
محدود رہ گئے،
جس میں وہ ایک
دقیانوسی
رومانٹک ہیرو
کا کردار کرتے
ہوئے نظر آتے۔
ناگ منی (1972) ، مستانی
محبوبہ (1974) ، لیلی
مجنون (1974) ، عزت
(1975) ، دلربا (1975) ، راستے
کا پتھر (1976) ، محبوب
میرا مستانا
(1976) ، اور ناگ
اور ناگن (1976) جیسی
فلموں نے انہیں
ناکامیوں کی
گہرائیوں تک
پہنچادیا. 1970 کی
دھائی کے اخیر
اور ابتدائی 1980
کی دھائی میں
وحید پرستش (1977)
، آدمی (1978) ، خدا
اور محبت (1978) ، آواز
(1978) ، بہن بھائی
(1979) ، وعدے کی
زنجیر (1979) ، راجہ
کی آئی گی
بارات (1979) ، ضمیر
(1980) ، بدنام (1980) ، گن
مین (1981) ، کرن
اور کلی (1981) ، گھیراو
(1981) آہٹ (1982) ، اور مانگ
میری بھردو (1983)
جیسی فلموں میں
ندیم یا محمد
علی کے ساتھ
بطور معاون
اداکار کے طور
پر محدود رہ
گئے۔ ہیرو (1985)
اور زلزلہ (1987)
ان کی موت کے
بعد ریلیز کی
گئیں۔ انکی غیر
ریلیز شدہ یا
نامکمل فلمیں مقدر،
آنکھوں کے
تارے ، آس
پاس اور انداز
تھیں۔ ہیرو
ان کے قریبی
دوست اقبال یوسف
کی طرف سے ہدایت
کردہ وحید کی
زندگی کی آخری
فلم تھی . فلم 1985
میں وحید کی
موت کے تقریبا
2 سال کے بعد
جاری کی گئی
تھی. وحید کی ایک
اور تاخیری
فلم زلزلہ بھی
جو کہ اقبال یوسف
کی طرف سے ہدایت
کی گئی تھی ،
جسے 1987 ء میں وحید
کی موت کے 4 سال
کے بعد ریلیز
کی گئی تھی . زلزلہ
تاہم باکس آفس
پر کچھ نہ
کرسکی مگر فلم
ہیرو نے کچھ
کامیابی کے
جھنڈے گاڑے
تھے اور مجموعی
طور پر 35 ہفتوں
سے ذیادہ چلنے
والی فلم نے
کراچی کے سینماوں
میں بھی 25 ہفتے
مکمل کئے تھے۔
وحید
مراد نے اپنے 25
سالہ کیریئر میں
زیبا، شمیم
آرا، رانی،
نغمہ، آلیہ،
سنگیتا، کویتا،
آسیہ، شبنم، دیبا،
بابرہ شریف،
رخسانہ، بہار
اور نیلو جیسی
اداکاراؤں کے
ساتھ فلموں میں
جوڑی بنائی.
انہوں نے کل 124
فلموں میں کام
کیا جن میں 38 بلیک
اینڈ وھائیٹ
اور 86 رنگین
فلموں ہیں۔ اس
کے علاوہ
انہوں نے 6
فلموں میں
بطور مہمان
اداکار کام کیا،
جن میں انکے کیریئر
کی پہلی فلم ساتھی،
جو کہ 1959 میں ریلیز
ہوئی تھی، بھی
شامل ہے۔
انہوں نے 115
اردو فلموں، 8
پنجابی فلموں
اور 1 پشتو فلم
میں کام کیا،
اور بطور بہترین
پروڈیوسر اور
بطور بہترین
اداکار کے طور
پر 32 فلم ایوارڈز
حاصل کئے۔ اس
کے علاوہ انہیں
2010 میں صدارتی ایوارڈ
’ستارۂ امتیاز‘
سے بھی نوازا
گیا۔ یہ ایوارڈ
انکی بیوہ
سلمہ مراد نے
حاصل کیا۔ [2]
ذاتی
زندگی
وحید
مراد کراچی میں
2 اکتوبر 1938 کو پیدا
ہوئے تھے. وہ
مشہور
پاکستانی فلم
ڈسٹری نثار
مراد اور انکی
اہلیہ شیریں
مراد کی واحد
اولاد تھے اور
ظہور الٰہی
مراد کے پوتے.
ظہور الٰہی
مراد سیالکوٹ
میں ایک وکیل
تھے اور علامہ
اقبال کے دوست
بھی۔
وحید نے اپنے
ابتدائی تعلیم
مَری کے Lawrence College, Ghora Gali سے جماعت
دوئم تک حاصل
کی۔ پھر بقیہ
اسکول کی تعلیم
اور 1954 میں میٹرک
کی سند کراچی
کے Marie Colaco School
سے
حاصل کی۔ کراچی
کے سندھ مسلم
آرٹس کالج سے
گریجویشن کیا
اور کراچی یونیورسٹی
سے انگریزی
ادب میں
ماسٹرز۔ اتنے
مضبوط تعلیمی
اور بااثر فلمی
گھرانے کے پسِ
منظر نے وحید
کو دیگر فلم
سازوں اور
اداکاروں کے
مقابلے میں ایک
انتہائی
مضبوط اور
طاقتور پروڈیوسر
و اداکار کے
طور پر لاکھڑا
کیا۔
بچپن
میں اپنے والد
کے پاس
باقاعدگی کے
ساتھ آنے والے
نامور
اداکاراوں سے
متعرف ہونے سے
وحید مراد میں
اداکاری کرنے
کے لئے حوصلہ
ملا۔ بچپن میں
وہ گردن پر
گٹار لٹکانے
اور اپنے
دوستوں میں ایک
اچھا ڈانسر کے
طور پر مشہور
تھے. انہوں اسکول
کی کئی ڈراموں
میں حصہ لیا
جس نے انہیں
بچپن میں مزید
شہرت دی۔ ان
کے بہترین
دوست پرویز
ملک اور اقبال
یوسف نے بھی
وہی پیشہ اپنایا
جو وحید نے
اپنایا تھا
اور ساری زندگی
وہ وحید سے
منسلک رہے،
بالخصوص
اقبال یوسف۔
وحید
مراد اور پرویز
ملک بچپن کے
دوست تھے۔ گریجوئشن
کے بعد دونوں
نے اپنے والدین
سے بیرونِ ملک
اعلی تعلیم کی
خواہش ظاہر کی۔
مگر وحید اپنے
ماں باپ کی
اکلوتی اولاد
تھے، انہیں بیرونِ
ملک جانے کی
اجازت نہ مل
سکی، البتہ
پرویز ملک فلم
پروڈکشن میں
ماسٹرز کرنے کیلیفورنیا،
USA چلے گئے۔
ادھر وحید نے
بھی کراچی یونیورسٹی
میں انگریزی
ادب میں
ماسٹرز کے لئے
داخلہ لے لیا۔
وہ پاکستانی
فلمی صنعت کے
پہلے ماسٹرز
ڈگری رکھنے
والے اداکار
تھے۔ چار سال
بعد جب پرویز
ملک وطن لوٹے
تو ملک کے
واحد ہدایت
کار بن گئے
جنہوں نے کیلیفورنیا
یونیورسٹی سے
فلم پروڈکشن میں
ماسٹرز کی ڈگری
حاصل کی تھی۔
وحید
مراد کراچی کے
میمن صنعتکار
ابراھیم میکر
کی بیٹی سلمہ
کو پسند کرتے
تھے۔ ان کی
شادی جمعرات 17
ستمبر 1964 کو
منعقد ہوئی.
شادی کی تقریب
طارق روڈ کراچی
میں نثار مراد
کے گھر میں
منقعد کی گئی۔
وہ گھر پر ’بی بی‘
کے نام سے اپنی
بیوی سے پکارا
کرتے تھے. انکی
دو بیٹیاں (آلیہ
اور سعدیہ)
اور ایک بیٹے
عادل تھے. سعدیہ
بچپن میں
انتقال کرگئی
تھی۔
جدوجہد
کے دن
1970 کی
دھائی کے اخیر
میں وحید ندیم
یا محمد علی
کے ساتھ بطور
معاون اداکار
کے طور پر یا ' بی
کلاس' فلم
ڈائریکٹرز کی
طرف سے پیش کی
جا نے والی
فلموں بطور
اداکار کے طور
پر کام کرنے
پر مجبور
ہوگئے تھے۔ زیبا
، شبنم اور
نشو جیسی
معروف نایکاوں
کے شوہروں کی
طرف سے وحید
کے ساتھ لیڈ
کردار ادا
کرنے کی اجازت
نہیں تھی. وحید
مراد اس طرح کی
ایک بدترین
برتاو کو
برداشت نہ کر
پا رہے تھے، لیکن
خاموش رہے اور
اپنے دوستوں
سے مدد طلب نہیں
کی. ستر کی
دہائی میں
مضبوط بن جانے
والے ڈائریکٹر
اور پروڈیوسر
پرویز ملک نے
ایک مقامی
اخبار میں
لکھا:
"اس
دوران ایک بار
بھی وحید میری
فلموں میں کام
کی تلاش میں میرے
پاس نہیں آئے۔"
وحید
اداس ہوتا جا
رہا تھا . ان کے
قریبی دوست نے
انکشاف کیا کہ
وہ شراب،
تمباکو نوشی
اور نیند کی
گولیوں کے عادی
ہوتا جا رہا
تھا۔ یہاں تک
کہ ان کی گھریلو
زندگی کو بھی
اس کا سامنا
کرنا پڑا اور
اس کی بیوی
سلمی ریاست
ہائے متحدہ
امریکہ کے لئے
چھوڑ گئی. بری
عادتوں اور کشیدگی
کی ایک مجموعہ
نے 1981 میں وحید کی
پیٹ میں ulceration
کا وجہ نی. ان
کو خون کی کمی
سے نقصان
اٹھانا پڑا
اور ان کی
زندگی کو
بچانے کے لئے ulcer ہٹانے کے
لئے آپریشن سے
گزرنا پڑا . اس
کے بہت سے
پرستار اپنے
پسندیدہ ہیرو
کی زندگی
بچانے کے لئے
خون کا عطیہ دینے
ہسپتال آئے.
وہ ٹھیک ہوا،
اگرچہ، وزن کی
ایک قابل ذکر
رقم کھو دی. اس
مشکل وقت میں
حقیقی دوست
ثابت ہوا
اقبال اختر
اور اقبال یوسف،
جنہوں نے اپنی
فلموں میں وحید
مراد کو لیا۔
دل نے پھر یاد
کیا اور گھیراو
میں وحید کی
حالت قابل رحم
نظر آتی ہے۔ یہ
چیز اس کے
پرستاروں نے
بھی محسوس کی۔
1983 میں
انور مقصود، ایک
مشہور ٹی وی
مصنف اور اینکر
اور وحید کے ایک
قریبی دوست،
نے ٹی وی کے
اپنے مزاحیہ
شو سلور جوبلی
مین وحید کو
مدعو کیا. صرف 90
پونڈ میں، وحید
نے کسی پنسل کی
طرح پتلے نطر
آتے ہوئے ایک
بہادر انسان
کے طور پر
سامنے پیش
ہونے کی کوشش
کی. تاہم مبصرین
دیکھ سکتے ہیں
کہ وحید اپنے
ماضی کی طرح
عوام پر ایک
سحر قائم کرنے
میں ناکام رہے۔
صرف عالمگیر
کے گانے تمہیں
کیسے بتادوں
کے دوران وحید
اپنی مخصوص
شرارتی
مسکراہٹ کے
ساتھ ماضی میں
کھوئے ہوئے
نظر آئے۔
وحید
مراد اپنی آخری
فلم ہیرو (1985) میں
بابرہ شریف
کے ساتھ |
بابرہ
شریف، اس وقت
کی سب سے اوپر
کی اداکارہ، ہیرو
کے ایک منظر کی
فلم بندی کے
دوران وحید اس
کی طرف تیزی
سے چلنے ہوئے
آئے کہ ان کا
توازن کھو گیا،
ان کو ایک بار
پھر اپنے پیروں
پر کھڑے ہونے
کے لئے اپنی
سانس کو بحال
کرنے میں کئی
منٹ لگے۔
جولائی
1983 میں وحید بہت
تیزی سے گاڑی
چلا رہا تھے،
جو کہ ان کے
پسندیدہ شوق
تھا، کہ ان کی
گاڑی ایک بڑے
درخت سے
ٹکراگئی۔ وحید
بہت مشکل سے
بچے لیکن ان
کے چہرے پر ایک
بڑا نشان چھوڑ
گیا تھا.
حادثے کے کچھ
دنوں کے بعد،
وحید نے ایک
کردار کے لئے
اپنے دوست پرویز
ملک سے پوچھا.
ملک چانتے تھے
کہ وحید اس
حالت میں
اداکاری کے
لئے تیار نہیں۔
یہ جان کر اس
نے کہا کہ
"ویدو
تم صحیح ہوجاو
اور میں تم کو
اپنی اگلی فلم
میں لے لو گا."
اپنے تیز
دماغ سے وحید
نے جواب دیا:
"تم
مجھے رول دو
اور میں صحیح
ہوجاونگا۔"
اس
وقت وہ اپنے
داغ کا علاج
کرانے کراچی
جارہے تھے
تاکہ وہ اپنی
فلم ہیرو کے
چند آخری سینز
ریکارڈ کراسکیں۔
[3]
ہوائی اڈے پر
انکی ملاقات
فلم میگزین ’نگار‘
کے چیف ایڈیٹر
الیاس رشیدی
سے ہوئی۔ رشیدی
اپنے میگزین میں
لکھتے ہیں:
"اسی
موقع پر ایک
مشہور فلم
پروڈیوسر بھی
انتظار کر رہے
تھا اور اس نے
وحید کو جاوید
شیخ کے والد
کا کردار ادا
کرنے کے لئے
کہا۔۔۔۔۔۔
پروڈیوسر کا
وحید کو چکما
دینا بہت مشکل
تھا."
پرواز
کے دوران وحید
بہت کڑوا نظر
آرہا تھا. اس
نے الیاس کو
بتایا کہ وہ
بدر منیر جو
کہ ان کا گاڑی
ڈرائیور تھا
کے ساتھ ایک
پشتو فلم میں
کام کرنے تک
رہ گیا ہے۔
آخری
دن اور موت
وحید
کے بیٹے عادل
مراد نے اپنے
نانی کے ساتھ
کراچی میں
تھا. چہرے کی
سرجری سے ایک
دن پہلے، وحید
نے اس کی
سالگرہ منائی.
انہوں نے عادل
کے لئے تحفہ
خریدا اور ایک
خوش سال کی
تمنا کی. وہ انیتا
ایوب کی ماں
ممتاز ایوب کے
گھر میں رات
گزارنے کرنے
کے لئے دیر سے
واپس آئے. صبح
جب وحید دیر
تک نہیں جاگا،
دروازہ توڑ کر
کھولا گیا تو
وحید مردہ فرش
پر پڑا پایا گیا.
اس کے پان میں
'کچھ' پایا گیا
تھا. کوئی نہیں
جانتا کہ وہ
دل کا دورہ
تھا یا کوئی
خود کش۔ وحید
گلبرگ
قبرستان، علی
زیب روڈ،
لاہور میں
اپنے والد کی
قبر کے قریب
دفن کئے گئے۔
چند
ماہ ان کی موت
سے پہلے، وحید
مراد کے ساتھ
ساتھ دیگر
اداکاروں اور
گلوکاروں نے
احمد رشدی کو
خراج تحسین پیش
ادا کرنے کے
لئے ایک شو
منقعد کیا تھا
، چھ مہینے
بعد یہی لوگ
وحید کی موت
پر ایک شو
منقعد کررہے
تھے۔
ورثہ
وحید
نے برصغیر کی
فلم انڈسٹری میں
انقلاب برپا
کردیا تھا۔ ان
کی اداکاری کے
انداز کو آج
بھی ہندوستان
اور پاکستان کی
فلمی اداروں میں
سکھایا جاتا
ہے۔ وہ آنے
والی فلمی
اداکاروں کی نسل
کے لئے ایک
ادارے کا درجہ
رکھتے ہیں۔ وہ برصغیر
میں Rock n' Roll کا
آغاز کرنے
والے ابتدائی
ستاروں میں سے
ایک سمجھے
جاتے ہیں۔
اپنے رومانوی
اندازِ
اداکاری کی
وجہ سے وہ
’چاکلیٹی ہیرو‘
اور ’لیڈی
کِلر‘ بھی
کہلائے۔ ان کے
بال بنانے کا
انداز، ان کے
لباس اور یہانتکہ
ان کے بولنے
کا انداز
بالخصوص
نوجوانوں میں
بے حد مقبول
ہوا۔ بلاشبہ
وہ پاکستان کے
کلچر کے سفیر
بن چکے تھے۔ ایک
دفعہ وہ اپنی
سفید گاڑی میں
کسی کام سے
صدر کراچی میں
گئے۔ اس بات
کو جانتے ہوئے
کالج کی 30 لڑکیوں
کے ایک گروپ
نے اپنی لِپ
اسٹک کے بوسوں
سے ان کی پوری
گاڑی کو سرخ
کردیا۔
وحید
کا عروج و
زوال ایلوس پریسلے
Elvis
Presley کی
طرح ہے۔ بقول
فلمی ناقدین
کے دونوں نے
اپنی ابتدائی
زندگی میں کامیابیوں
کی انتہا کو
چھو لیا، مگر
پھر جب گرے تو
بری طرح گرے
اور یک دم
اچانک اموات
ہوئیں۔
بلاشبہ وحید
مراد ابتدائی
کامیابیوں میں
ملک کے سب سے زیادہ
سحر انگیز شخصیت
ہونے کا لطف
اٹھایا اور
پھر ایلوس کی
طرح زوال کا
شگار ہوئے اور
پھر اچانک اس
کوچہ فانی سے
چلے گئے.
پاکستان میں
اتنی
انتہاپسندی
ہوئے اور
پاکستانی سینماوں
کے ڈھائے، اور
ہندوستانی
فلموں کی
حکمرانی ہونے
کے باوجود آج
بھی وحید کی
فلموں کو فلم
فیسٹیول، سینما
گھروں اور ٹی
وی پر دکھایا
جاتا ہے اور
وہ فلمیں آج
بھی اسی طرح
پسند کی جاتی
ہیں جیسا کہ 1960 کی
دھائی میں دیوانہ
وار پسند کی
جاتی تھیں۔
ہندوستان
کے ایک رسالے ’شمع
دہلی‘ کو راجیش
کھنہ نے انٹرویو
دیتے ہوئے
کہا:
’میں
نے انکی اتنی
فلمیں دیکھی ہیں
اور یہ مانا
کہ بلاشبہ وہ
ایک عظیم
اداکار تھے
اور میں ان کی
بے مثال
اداکاری کو
بہت پسند کرتا
ہوں۔‘
الیاس
رشیدی، ’نگار
فلم ایوارڈز‘
کے خالق اور
ہفتہ وار فلمی
رسالہ ’نگار‘
کے چیف ایڈیٹر
لکھتے ہیں:
’وحید
پیدائشی ہیرو
تھا۔‘
غلام
محی الدین، ایک
نامور
پاکستانی فلم
اداکار، کہتے
ہیں:
"وحید
مراد ایک فرد
نہیں تھا بلکہ
وہ ایک دور
تھا جسے
ابتدائی 1980 کے
دھائی میں فلمی
صنعت پر قبضہ
کر نے والے
لوگوں نے ایک
کونے میں لگا
دیا تھا... وہ ایک
عظیم اداکار
تھے جس نے
رومانٹک ہیرو
کی بہترین تصویر
پیش کی۔ ان میں
موسیقی کی اچھی
حِس تھی اور
گانوں کی عکس
بندی میں وہ
منفرد تھے۔"
پاکستانی
فلموں اور تھیئٹر
کے عظیم کامیڈین
لہری کہتے ہیں:
"وہ
ایک عظیم ساتھی،
ایک ناقابل
فراموش دوست
اور پیسے اور
قسمت کے دھنی
شائستہ آدمی
تھا."
حال
ہی میں ہالی
ووڈ فلم Agent Cody Banks 2: Destination
London میں
اداکارہ Leilah Isaac اسحاق کے
کردار Sabeen نے وحید
مراد کو یاد کیا.
Frankie
Muniz ایجنٹ
کوڑی بینکس کا
کردار ادا
کرہا ہے اپنے
ساتھیوں کو
بتا رہا ہے کہ
وہ ایک سیکرٹ
ایجنٹ ہے، جس
پر نائیجیریا
کا لڑکا
(مذاقتا) کہتا
ہے کہ وہ Spiderman
ہے، جبکہ دوسری
لڑکی کہتی ہے
کہ وہ Lara Croft
ہے۔ جیسا کہ
ہر ساتھی اپنی
پسندید
کرداروں سے
اپنے آپ کو
تشبیہ دینے
لگا۔ توSabeen نے کہا:
’اور
وہ وحید مراد
ہے!‘
جس
پر وہاں موجود
لوگوں نے حیران
ہوکر پوچھا: ’کیا؟‘
تو
وہ بولی: ’ایک
مشہور انڈین
اداکار!‘
وحید
مراد ایک
شاندار
اداکار تھے.
فلموں میں
ناکامی ان میں
ٹیلنٹ کی کمی
کی وجہ سے نہیں
تھی. درحقیقت
وہ پاکستان میں
سب سے زیادہ
سجیلے اور اصلی
اداکار تھے.
انہوں نے اپنے
ٹیلنٹ سے کئی
معمولی
سکرپٹوں میں غیر
معمولی
اداکاری کرکے
فلمی صنعت کے
امیج کو بہتر
کیا، مگر بدلے
زمانے نے ان
کو بری قسمت
سے نوازا۔ ان
کی اپنی مضبوط
شخصیت اور
دلربا اداکاری
نے ہی انہیں
برباد کردیا۔
تاہم وہ اب بھی
شائقین کے
لاکھوں کے
دلوں میں رہتا
ہے۔ اس کی بیٹی
آلیہ کہتی ہیں:
’اگر
ابو جانتے
ہوتے کہ انہیں
اتنا پسند کیا
جاتا تو وہ نہیں
مرتے.‘
وحید
مراد کے حاصل
کردہ ایوارڈز (کلک کریں)
وحید
مراد کی فلمیں (کلک کریں)
وحید
مراد پر
فلمائے گئے گانے (کلک کریں)
حوالہ
جات
3.
^
وحید
مراد سے منسلک
101 حقائق
بیرونی
روابط
·
جالبینی
تحریکاتی معطیات
(IMDb) پر وحید
مراد
·
نگار
اعزاز جیتنے
والی شخصیات
·
وصول
کنندگان تمغہ
حسن کارکردگی